دارالعلوم سبیل الرشاد

فہرست دیکھنے کیلئے یہاں کلک کریں

مسجد تحت الثرا سے ثریا تک مسجد ہی ہو تی ہے

مسجد تحت الثرا سے ثریا تک مسجد ہی ہو تی ہے

سوال

مکرمی ! حضرت مفتی صاحب دامت برکاتہم السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

عرضِ خدمت یہ ہے کہ ہماری مسجد (جواب تک شیڈ کی بنی ہوئی ہے )کی تعمیر جدیدکرتے ہوئے اگر پہلے درجہ میں مسجد بنائیں، اور مسجد 

کے نیچے حصے میں مکتب ، وضوخانہ اور استنجاء خانہ بنائیں ،اور دوسرے فلور میں مسجد کے عملہ کے لئے یعنی امام صاحب، مؤذن صاحب 

اور دیگر خادموں کے لئے مکانات کی تعمیر کریں ،کیا یہ درست ہے یانہیں ؟۔

براہِ کرم ہم آپ حضرات کے جواب کے منتظر رہیں گے ۔ صحیح  طریقہ بتائیں ۔عین کرم ونوازش ہوگی ۔

فقط والسلام دستخط مسجد عثمان بن عفان نمبر 16 فسٹ مین ، نواں اے مین روڈ،بی ٹی یم لے آئوٹ فسٹ اسٹیج،بنگلور 560029

جواب

جوجگہ ایک بار مسجد بن جاتی ہے وہ جگہ ہمیشہ کے لئے تاقیامت مسجد ہی رہتی ہے ،مسجد اوپر سے نیچے تک یعنی تحت الثریٰ سے آسمانوں 

تک مسجد ہے ، اس کی اس حیثیت کو باقی رکھنا لازم ہے ، اس لئے مسجد کے اوپر یا نیچے مسجد کی عظمت یا احترام کے خلاف کوئی تصرف 

کرنا یا کسی دوسرے کام میں استعمال کرنا جائز نہیں، پس مسئولہ صورت میں قدیم مسجد کے پورے رقبہ کو نئی تعمیرہونےوالی مسجد میں 

شامل کرنا ضروری ہے ۔لہذا مسجد کے تحتانی حصے میں مکتب یا وضو خانہ یا استنجاء خانہ بنانا جائز نہیں،نیزمسجد کی دوسری منزل میں مسجد 

کے عملہ کے لئےگھر بنانابھی جائز نہیں۔

تحريما الوطیٔ فوقه والبول والتغوط لأنه مسجد إلى عنان السماء،الدر،قولہ الی عنان السماء بفتح العین وکذا الی تحت الثری ( ردالمحتار ج؛۱، ص:۶۵۶) لو بنى فوقه بيتا للإمام لا يضر لأنه من المصالح، أما لو تمت المسجدية ثم أراد البناء منع ولو قال عنيت ذلك لم يصدق تتارخانية الخ  ولا يجوز الخ  أن يجعل شيئا منه مستغلا ولا سكنى بزازية ، ولو خرب ما حوله واستغني عنه يبقى مسجدا عند الإمام والثاني أبدا إلى قيام الساعة وبه يفتي ،الدر، قوله: أما لو تمت المسجدية أي بالقول على المفتى به أو بالصلاة فيه على قولهما الخ وبهذا علم أيضا حرمة إحداث الخلوات في المساجد كالتي في رواق المسجد الأموي، ولا سيما ما يترتب على ذلك من تقذير المسجد بسبب الطبخ والغسل ونحوه (ردالمحتار ج؛۴ ص: ۳۵۸)

You may also like these