دارالعلوم سبیل الرشاد

فہرست دیکھنے کیلئے یہاں کلک کریں

دعا میں فاتحہ کا رواج

دعا میں فاتحہ کا رواج

جواب

جن مساجد میں دعامیں فاتحہ کا رواج ہو،وہاں تعامل وتوارث کی بناء پر جائز ہے ، البتہ جہاں اس کا معمول نہ ہو وہاں شروع نہ کیا جائےاور 

اس مسئلے کولے کرامت میں انتشار پیدا نہ کریں ۔

اہم اور قابلِ توجہ بات یہ ہے کہ قرآن وحدیث کی رو سے مسلمانوں میں اتفاق واتحاد سب سے زیادہ لازمی اور ضروری ہے اور مندوبات 

ومستحبات کے لیے آپس میں جدال ونزاع ، عداوت، چغلی اور غیبت جیسے حرام کاموں میں مبتلا ہونا قطعاً جائز نہیں۔

 قراءة الفاتحة بعد الصلاة جهراللمهمات بدعة قال أستاذنا: لكنها مستحسنة للعادة والآثار ،الدر، قولہ قال استاذنا الخ وظاہر قولہ والاثار:و ورودہ فھو رد علی قولہ بدعۃ (حاشیۃ الطحطاوی علی الدرالمختار ج۴،ص:۲۱۱) قوله قال أستاذنا هو البديع شيخ صاحب المجتبى واختارالإمام جلال الدين إن كانت الصلاة بعدها سنة يكره وإلا فلا (ردالمحتار ج ۶ ص ۴۲۳) وقرأۃ الفاتحۃ بعد المکتوبۃ لاجل المھمات مخافتۃ او جھرا مع الجمع مکروھۃ واختار القاضی بدیع الدین انھا لا تکرہ الخ واختار القاضی الامام جلال الدین ان کانت الصلوٰۃ بعدھا سنۃ تکرہ والا فلا کذا فی التتارخانیۃ (عالمگیری ج۵، ص۳۱۷) درء المفاسد اولی من جلب المصالح فاذا تعارضت مفسدۃ ومصلحۃ قدم دفع المفسدۃ غالبا لان اعتناء الشرع بالمنھیات اشد من اعتنائہ بالمامورات

جس مسئلہ پر زور دینے میں فتنہ کھڑا ہوتا ہو، اس میں گفتگو بند کردی جائے کیونکہ اس خاص مسئلۂ دین کی حمایت کرنے سے فتنے کا دبانا 

زیادہ ضروری ہے الخ جہاں مخاطب سمجھدار منصف مزاج ہو ،وہاں صحیح مسئلہ بیان کردے ،جہاں بحث و مباحثہ کی صورت ہو، خاموش 

رہے(کمالات اشرفیہ صفحہ ۹۵ملفوظ نمبر ۳۹۸)

About the Author

You may also like these